اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ایجاد کو اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے۔ موبائل فون نے جہاں رابطوں کو آسان کیا ہے، وہیں اس کے بے جا استعمال نے بہت سی نفسیاتی الجھنوں اور دوسرے بہت سے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔بات تب خطرناک ہو جاتی ہے، جب ایک چھ ماہ کے بچے کو بہلانے کے لیے موبائل کی سکرین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بچے کا ذہن، جس کے لیے ہر رنگ برنگی اور حرکت کرتی چیز کشش اور سکون کا باعث ہوتی ہے، وہ اس کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ والدین اسی بات کو سکون سمجھ کر سکھ کا سانس لیتے ہیں بنا یہ جانے کہ وہ خود اپنے بچے کے لیے ایسا شکنجہ تیار کر رہے ہیں، جس سے نکلنا نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔موبائل سکرین استعمال کرنے سےبچے کی نظر پر بوجھ بڑھاتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں۔ نظر کمزور ہو جاتی ہے‘بچے چڑ چڑے ہو جاتے ہیں اور کئی معاشرتی مسائل اور برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سارادن موبائل پر انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال
گزشتہ ہفتے ایک فیملی میرے کلینک میں آئی جن کا ایک چودہ سالہ بیٹا تھا۔انہوںنےبتایا کہ ہمارایہ بچہ حافظ قرآن ہے۔گھر میں اکثر اپنے والدیا بھائی کا موبائل استعمال کرتا رہا اور پھر ضد کر کے اپنا موبائل لیا۔جب سے موبائل اس کے ہاتھ میں آیاتو سکول کی پڑھائی‘نماز‘قرآن ان سب چیزوں سے بے خبر ہو چکا ہے۔نہ کھانے کی اور نہ ہی کسی اور کام کی خبر رہتی ہے۔سارا دن فیس بک اور یوٹیوب استعمال کرتا ہے‘مزاحیہ کلپ دیکھنا شروع کیے اور پھر آہستہ آہستہ مزید استعمال کرنے لگا۔اس کے مزاج میں چڑ چڑا پن آنا شروع ہو گیا۔سکول میں امتحانات ہوئے تو بمشکل پاس ہوا‘ موبائل کے استعمال نےاس کےذہن کومفلوج کر کے رکھ دیا۔موبائل سے روکنے پردوسرےبہن بھائیوں کےساتھ الجھنا اور بدتمیزی کرنا شروع کر دی۔آخر ہم نے تنگ آکر اس سے موبائل واپس لے لیا تاکہ اپنی جان پر مزید ظلم نہ کرے۔اب جب سے اس سے موبائل لیا ہے تب سےاس نے مزید تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔سکول کے ٹیچر بھی اس کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ سارادن خاموش بیٹھا رہتا ہے اور نہ کوئی سکول کا کام کرتا ہے۔ایک ٹیچر نے جب چند بار ڈانٹا تو ان سے بھی بدتمیزی شروع کر دی۔ہماری کوئی بات نہیں مانتا‘ بدتمیزی پر اتر آتا ہے‘مار پیٹ کراور پیار سے سمجھا کر دیکھ لیا مگر اس کی ایک ہی ضد ہے کہ موبائل واپس دیا جائے۔ہم ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہتے کیونکہ مسلسل موبائل کا غلط استعمال کرنے کی وجہ سےاس کی جسمانی حالت کافی کمزور ہوگئی اور یہ کند ذہن بن چکا ہے۔اس کا دماغ منتشر رہتا ہے‘سخت ذہنی دبائو کا شکار ہے جس وجہ سے فیملی ڈاکٹر نے کسی سائیکالوجسٹ سے علاج کا کہا ہے۔بچے کی والدہ یہ باتیں بتاتے ہوئے رو پڑیں۔والد بھی آبدیدہ تھے مگر لڑکے کو اس کی کوئی پرواہ نہ تھی اور نہ ہی اپنے والدین کی باتوں پر کوئی توجہ کر رہا تھا۔
خدارا اپنے ہاتھوں سے نسلوں کو تباہ ہونے سےبچائیں
یہ کوئی ایک کیس نہیں ہر مہینے ان مسائل میںمبتلا کئی فیملیاں میرے پاس آتی ہیں‘ان کے علاج کے لئے بہت زیادہ محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔میرا تجربہ ہے کہ ان مسائل میں بچے سے زیادہ اس کے والدین قصور وار ہوتے ہیں کیونکہ وہ بچپن سے ہی اس کے ہاتھ میںموبائل تھما دیتے ہیں جو بعد میں وبال جان ثابت ہوتا ہے۔میرا یہ تحریر لکھنے کا مقصد والدین کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہےکہ کم عمر بچوں کو موبائل اور انٹرنیٹ سے جتنا ممکن ہو سکے دور رکھیں‘بچوں کو بہلانےاور چپ کروانے کے لئے ہر گز موبائل نہ دیں ورنہ یہ غفلت عمر بھر بچے اوروالدین دونوں کے لئے سخت نقصان اور پریشانی کا سبب بن جائے گی۔(ڈاکٹر عرفان نبیل ‘لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں